دل جلتا ہے

جب جانا پہچانا موسم
اِک آن میں رنگ بدلتا ہے
ان گنت زمانوں سے جاری
کسی ربط کی سانسیں ٹوٹتی ہیں
جب ترک ِ تعلق کے طوفان میں
چاہت کی کومل کونپل
یک لخت بکھرنے لگتی ہے
جب وقت کے آنگن میں رقصاں
کسی عشق کی خوشبو تھک کر مرنے لگتی ہے
جب دور اُفق پر یاد کا سورج ڈھلتا ہے
رگ رگ سے درد اُبلتا ہے
دل جلتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]