دل میں جو خلش پنہاں ہے کہیں، اس کا ہی تو یہ انجام نہیں

دل وقفِ غم و آلام ہوا، اب دل میں خوشی کا نام نہیں

مرہونِ حقیقت ہیں اب ہم، باطل سے ہمیں کچھ کام نہیں

احسانِ نگاہِ ساقی ہے، اب شغلِ مئے گل فام نہیں

احساسِ زیاں تو رکھتے ہیں، لیکن یہ بروئے کار بھی ہو

منزل کی طلب ہے دل میں مگر، منزل کی طرف اقدام نہیں

خورشیدِ منور، نجمِ فلک، دونوں سے سبق یہ ملتا ہے

جو شام کو آیا صبح نہیں، جو صبح کو آیا شام نہیں

اے جادۂ الفت کے راہی، اے خوبیِ قسمت کے مالک

تُو فائزِ منزل ہو کہ نہ ہو، ہر حال میں تُو ناکام نہیں

رنگینیِ فطرت ہے قائم، پر ان کے ایک نہ ہونے سے

اب صبح میں کیفِ صبح نہیں، اب شام میں کیفِ شام نہیں

بس نفس سے رشتہ باقی ہے، اب روح سے رشتہ ٹوٹ چکا

جینے کی دعا کیوں دیتے ہو؟ زندوں میں نظرؔ کا نام نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]