دل و دماغ سے اترا نہ کَوملیں لہجہ

مہک رہا ہے ابھی تک وہ عَنبریں لہجہ

کہ آپ جیسی کسی اور میں نہیں ہے بات

کہ آپ جیسا کسی اور کا نہیں لہجہ

پھر اس کے بعد کٹی عمر بدگمانی میں

بس ایک بار سنا اس کا بے یقیں لہجہ

یہ کس نے کر دیا اُس کو کچھ اور بھی انمول

یہ کس نے جڑ دیا ہونٹوں پہ احمریں لہجہ

سفر میں پاوں کی زنجیر ہونے والے ہیں

کہیں کہیں تری آنکھیں کہیں کہیں لہجہ

مجھے تو اور ہی دنیا میں لے گیا کل شب

تمہارا شعر سناتا وہ خواب گیں لہجہ

میں بات سنتے ہوئے اس کی کھو سا جاتا ہوں

حسین چہرہ ہے اُس شخص کا ،حسیں لہجہ

روانی اور بھی لفظوں میں بڑھ گئی قیصر

ہوا غزل میں جو شامل وہ نغمگیں لہجہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]