دل کو ٹٹولئے، کوئی ارمان ڈھونڈئیے

پھر سے کسی نظر میں پرستان ڈھونڈئیے

یونہی گزر نہ جائے یہ موسم شباب کا

آرائشِ حیات کا سامان ڈھونڈئیے

کب تک گلاب ہاتھ میں لے کر پھریں گے آپ

موسم بہت شدید ہے گلدان ڈھونڈئیے

دیوار ہی گری ہے، یہ بازو نہیں گرے

ملبہ اٹھا کے سائے کا امکان ڈھونڈیے

اٹھتی ہے اک صدا سی مشینوں کے شور میں

ہو گا یہیں کہیں کوئی انسان، ڈھونڈئیے

ملیے کبھی اکیلے میں خود اپنے آپ سے

سارے نقاب اُتار کے پہچان ڈھونڈئیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]