دل کو چھوڑا مجھ کو الزامِ خطا دینے لگے

وہ تو ملزم ہی کے حق میں فیصلا دینے لگے

جب وہ سائل کو بنامِ مصطفیٰ دینے لگے

تھی طلب جتنی اسے اس سے سوا دینے لگے

دل سی شے لے کر ہمیں داغِ جفا دینے لگے

کچھ نہ سوچا کیا لیا تھا اور کیا دینے لگے

آخری لو پر تھا جب میرا چراغِ زندگی

غم کی گھبراہٹ میں سب منہ کی ہوا دینے لگے

اپنے ملنے کو کہا میری رگِ جاں کے قریب

اللہ اللہ کس قیامت کا پتہ دینے لگے

چند آنسو آ گئے تھے آنکھ میں چرچے ہیں سو

لوگ اتنی بات کو کتنی ہوا دینے لگے

ظلمتِ دل کو ہماری پوچھتے کیا ہو نظرؔ

گیسووں والے کا اب ہم واسطا دینے لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]