دل کہاں ضبط میں ہے،آنکھ کہاں ہوش میں ہے

آج پھر نعت کا دریائے کرم جوش میں ہے

اذن مِلتے ہی نکل آئے گا یہ نُور بکف

رات سے مِہر جو رقصاں تری پاپوش میں ہے

بے خطر ایسے نہیں ہُوں مَیں سوئے حشر رواں

میرے حصے کی شفاعت تری آغوش میں ہے

ساتھ لے جا اے مدینے کے مسافر ! لے جا

ایک بے صوت صدا ناعتِ خاموش میں ہے

پھر اُٹھا لایا ہے کاسہ سرِ دربارِ کرم

کتنی آسودگی اس زود فراموش میں ہے

نعت ہی پڑھ کے سُنا دے گا نکیرین کو وہ

اتنی تو فہم کریما ! ترے کم کوش میں ہے

محو ہو جائے گا عصیاں کا ہر اِک حرفِ سیاہ

فردِ ظُلمت مری اب شہرِ ضیا پوش میں ہے

ڈھونڈ لے گی تری رحمت سرِ محشر اُس کو

اِک تسلی یہ ترے بندۂ روپوش میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]