دل کے صحرا میں کھلے لالۂ طاعت آقا !
مجھ کو حاصل ہو کبھی یہ بھی سعادت آقا !
کاش وہ دن بھی کبھی آئے کہ میں دیکھ سکوں
شہرِ کردار پہ بس تیری حکومت آقا !
ہے مرا دعویٰ اُلفت ابھی محتاجِ دلیل
کاش اعمال کو مل جائے حرارت آقا !
ہر عمل میں ہو مرے بوذرؓ و سلماںؓ کی جھلک
مجھ کو ہو جائے نصیب ایسی شباہت آقا !
دیں کے پیغام کی تنویر سے روشن ہو جہاں
پھر نظر دیکھ سکے رنگِ اُخوت آقا !
کاش بیدار ہو پھر جذبۂ تعمیر کے ساتھ
ایک مدت سے ہے خوابیدہ یہ ملت آقا !
دِرہمِ حسنِ عمل سے ہے یہ کشکول تہی
منتظر ہوں کہ بڑھے دستِ سخاوت آقا !
جتنی ہوتی ہے مرے عہد سے آگاہ نظر
اُڑتی جاتی ہے مرے چہرے کی رنگت آقا !
حسنِ اِخلاص کے پھولوں سے سجاؤں آنگن
میری جانب بھی ہو وہ چشم عنایت آقا !
کاش مل جائے ہر اِک دل کو مرا کربِ دروں
کاش بڑھ جائے مرے درد کی وسعت آقا !
میرے خوابوٖں کو بھی اظہار کی تعبیر ملے
میرے لہجے کو میسر ہو صداقت آقا !
منتظر ایسے ہی لمحے کا عزیزؔ احسن ہوں
اِک توجہ سے بڑھا دیں مری عزت آقا !