دوائیں رکھتے ہوئے، نشتروں کے ہوتے ہوئے

مرض تو بڑھ گئے چارہ گروں کے ہوتے ہوئے

حریفِ جاں! یہ روایت نہیں ہماری کہ ہم

عمامے پیروں میں رکھ دیں سروں کے ہوتے ہوئے

ثبوت اور میں کیا دوں تجھے اسیری کا

اُڑانیں دیکھ تو میری پروں کے ہوتے ہوئے

ہر آدمی ہے تلاشِ اماں میں سرگرداں

تمام شہر ہے بے گھر گھروں کے ہوتے ہوئے

یہ سوچنے کی نہیں فیصلے کی ساعت ہے

گزر نہ جائے کہیں مشوروں کے ہوتے ہوئے

یہ فاصلے تو بڑھے جا رہے ہیں روزبروز

تمام ہاتھوں میں نامہ بروں کے ہوتے ہوئے

تم اُن کی گرد میں منزل کو ڈھونڈتے ہو ظہیرؔ

جو کارواں ہوئے گم رہبروں کے ہوتے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]