دوستوں کو دشمنوں کو بھول کر
اک ملن سب مسئلوں کو بھول کر
اک پرانی یاد کو تازہ رکھا
روزمرہ سانحوں کو بھول کر
پوچھنا یہ ہے کہ ہجرت نصیب
کیسے زندہ ہیں گھروں کو بھول کر
اک نئی صورت کے دلدادہ ہوئے
پچھلے سارے رابطوں کو بھول کر
عشرتِ امروز میں گم گشتگی
آنے والی ساعتوں کو بھول کر
ٹوٹ کر اس سے ملا تھا نقشؔ میں
سب دکھوں ، سب رت جگوں کو بھول کر