دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو

ہم نے سمجھا نہیں دریا کی پریشانی کو

یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی

لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

بے گھری کا مجھے احساس دلانے والے

تو نے برتا ہے مری بے سر و سامانی کو

شرمساری ہے کہ رکنے میں نہیں آتی ہے

خشک کب تک کوئی کرتا رہے پیشانی کو

آپ سے کس نے طلب کی ہے جنوں پر رائے

چھوڑئیے آپ مری چاک گریبانی کو

جیسے رنگوں کی بخیلی بھی ہنر ہو اظہرؔ

غور سے دیکھیے تصویر کی عریانی کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]