دونوں سرے ہی کھو گئے، بس یہ سرا ملا

اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا

رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر نظر ہوئی

بینائی کھو گئی تو مجھے آئنہ ملا

اُس کو کمالِ ضبط ملا، مجھ کو دشتِ ہجر

لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا

آنے لگے نظر غم و آلامِ دو جہاں

بالغ نظر ہوئے تو اِن آنکھوں کو کیا ملا

گم دشتِ شوق میں جو ہوئے، پا گئے مراد

منزل نہ پا سکے وہ جنہیں رہنما ملا

مخلوق ہوں میں اُس کی مرا ہاتھ تھام لیں

دیکھیں مجھے بھی کاش وہ جن کو خدا ملا

دیکھا نکل کے خود سے تو منظر کھلا ظہیرؔ

ہمت بڑھی ہے میری، مجھے حوصلہ ملا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]