دیارِ خلد میں جاہ و حشم حسین کا ہے

دیارِ خلد کا ہر پیچ و خم حسین کا ہے

خوشی یہ ہے کہ غلامانِ آل سے ہیں ہم

حریمِ قلب میں حالانکہ غم حسین کا ہے

بھلائے کیسے کوئی داستانِ کرب و بلا

لہو شفق پہ ابھی تک رقم حسین کا ہے

وہ میرے قلب کو دیتا ہے راحتوں کے گہر

جو دل پہ ثبت ہے نقشِ قدم حسین کا ہے

عدو کی نام وری خاک ہو گئی لیکن

جو سر بلند رہا ہے علم حسین کا ہے

چھڑایا نارِ جہنم سے حر کو لمحوں میں

فدائے آلِ نبی پر کرم حسین کا ہے

حضورِ پاک، علی، فاطمہ، حسین، حسن

گھرانہ سارا بڑا محترم حسین کا ہے

یزیدیت کے دیے بجھ بجھا گئے کب کے

چراغِ عشق مگر تازہ دم حسین کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]