دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

دکھا دو جلوہ ہٹا کے پردہ ہمارے نیناں ترس گئے ہیں

ہمیں بھی دو بوند ہوں عنایت ہمارا دامن بھی منتظر ہے

تری عطا کے، ترے کرم کے مطیر بادل برس گئے ہیں

کوئی بھی دل کش حسین منظر نظر میں جچتا نہیں ہماری

درِ نبی کے حسیں نظارے ہماری آنکھوں میں بس گئے ہیں

ترے ثناء گو کا ایک اک پل حضوریوں میں گزر رہا ہے

ذرا توجہ ہٹی تھی میری تو ناگ فرقت کے ڈس گئے ہیں

پرندے فکر و خیال والے سدا رہیں گے اسیر تیرے

ملا نہیں اذنِ باریابی پلٹ کے سوئے قفس گئے ہیں

ہو نقشِ پا پر یہ جان قرباں ہو نعلِ پا پر جہان قرباں

سنا کے مژدہ شفاعتوں کا جو گھول کانوں میں رس گئے ہیں

رواں تھا اشفاقؔ بحر رحمت کرم کی موجیں عروج پر تھیں

مرے گناہوں کے بھاری پتھر مثالِ خاشاک و خس گئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]