دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے

ایسے پڑھے ورق کہ سیاہی ملی مجھے

کس دشت میں چلا ہوں کہ احساس مر گیا

صورت دکھائی دی نہ صدا ہی ملی مجھے

خالی پیالے سینکڑوں ہاتھوں میں ہر طرف

تشنہ لبی اور ایک صراحی ملی مجھے

ہمزاد میرا مر گیا میری انا کے ساتھ

ورثے میں تخت ذات کی شاہی ملی مجھے

اپنی نظر میں خود مری توقیر بڑھ گئی

جب سے تری نظر کی گواہی ملی مجھے

دیوار اختلاف سلامت ہے شہر میں

دونوں طرف ہی ورنہ تباہی ملی مجھے

چاروں طرف خزانے محبت کے ہیں ظہیرؔ

جو چیز میں نے پیار سے چاہی ملی مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]