دید شنید

کتاب میں ہے ذکر کچھ تو دیکھنے میں اور ہے

عجیب تجھ پہ وقت ہے عجیب تجھ پہ دور ہے

نماز تجھ پہ بار ہے زکوٰة تجھ پہ شاق ہے

تو نیکیوں میں سست ہے برائیوں میں چاق ہے

دماغ میں غرور ہے خیال میں فتور ہے

نگاہ نشہ خیز ہے شراب کا سرور ہے

زبان بھی کرخت ہے کلام بھی درشت ہے

تو جنگ جو تو تند خو پسند خون و کشت ہے

یہ عرس ہے مزار پر یہ نغمہ و سرود ہے

یہ راگ رنگ ہے ادھر یہ ناچ اور کود ہے

تو عقل کا اسیر ہے تو عقل کا غلام ہے

حرام اب حلال ہے حلال اب حرام ہے

نہ گرم تجھ سے بزم ہے نہ گرم تجھ سے رزم ہے

تو پست جان و تنگ دل نہ حوصلہ نہ عزم ہے

نہ قلب ہی سلیم ہے نہ ذہن تیرا صاف ہے

عزیز تر ہے تجھ کو وہ جو دین کے خلاف ہے

نہ عہد استوار ہے نہ قول میں قرار ہے

گرا ہے پستیوں میں تو زبون و خستہ خوار ہے

یہود سے ہنود سے مشابہت کا رنگ ہے

وہ طرز ہے وہ طور ہے وہ رنگ ہے وہ ڈھنگ ہے

خدا کا دین چھوڑ کر تو آپ بے ضمیر ہے

تو دشمنانِ دین کی لکیر کا فقیر ہے

فراق اَلکتاب سے فراق اَلحدیث سے

تو سیکھتا ہے علم و فن فرنگی خبیث سے

کتاب میں ہے ذکر کچھ تو دیکھنے میں اور ہے

عجیب تجھ پہ وقت ہے عجیب تجھ پہ دور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]