دیے ساقی نے مجھ کو چند جام آہستہ آہستہ

ہوا یہ دور مے آخر تمام آہستہ آہستہ

کرے گر کوئی یوسف ہو کے زنداں میں شکیبائی

عزیز مصر ہو اس کا غلام آہستہ آہستہ

ادب سے سر جھکا کر قاصد اس کے روبرو جانا

نہایت شوق سے کہنا پیام آہستہ آہستہ

ترقی ہوتی جاتی ہے اگر واقف نہ ہو سالک

چلے منزل تو پاتا ہے مقام آہستہ آہستہ

عزیزؔ خستہ جاں سے کچھ علاقہ ان کو ہے بے شک

لیا کرتے ہیں زیر لب یہ نام آہستہ آہستہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]