ذرا ہیں لوگ مُختلف، ذرا سی ہے سِپاہ اور

ہے اِس کا نام "​شہرِدِل”​، ہے دِل کا بادشاہ اور

ہے دِل کا اور کربلا، ہے مُختلف فُرات بھی

کہ اِس کا ہے حُسین اور، ہے اِس کا ذُوالجِناح اور

جو میں نے جِسم و رُوح سب ہی پیش کر دئے اُسے

تو عاشِقی نے یہ کہا کہ "​ایک دو گواہ اور”​

وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کے یہ کہہ رہی تھی "​بھاگ چل”​

اور ایک مَیں بھی اَڑ گیا کہ "​چند ایک ماہ اور”​

اے زندگی! تِرا مِرا نِباہ اُس نہج پہ ہے

کہ اِک طرف طلاق ہے، تو اِک طرف بِیاہ اور

یوں روز روز خواب میں مِلنا بھی اِک گُناہ تھا

سو ہم نے خواب خواب میں ہی کر لیا نِکاح اور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]