ذرّہ ، ذرّہ جہاں کا بنا طور ہے

جس طرف دیکھئے نور ہی نور ہے

کس کی آمد کے چرچے ہیں کیوں آج یہ

سارا عالم مسرت سے معمور ہے

کس لیے ہے فلک سر جھکائے ہوئے

کیوں زمیں اپنی قسمت پہ مغرور ہے

جشن برپا ، صدائیں ہیں صلِّ علیٰ

کیوں مَلَک شادماں ، دنیا مسرور ہے

ہر طرف راحتیں کیوں نئی رونقیں

ایسا کیا ہے کہ رنج و بلا دور ہے

کس لیے خلق حیرت زدہ چار سو

کیوں یہ چشمِ فلک آج مخمور ہے

آئی ، آئی ندا دیکھو ، دیکھو ذرا

آج سرکار کا جشنِ پُرنور ہے

اُن کے آنے سے خوشیاں دوبالا ہوئیں

اس لیے کوئی غمگیں نہ مجبور ہے

عاشقانِ نبی شادماں ہیں رضاؔ

ایک شیطان ہے جو کہ رنجور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]