ذرۂ ناچیز کیا یہ وہ شہِ عالم کہاں

لکھ سکوں مدحت نبی کی مجھ میں اتنا دم کہاں

سیکڑوں آئے جلیل القدر پیغمبر مگر

کوئی بھی ہم رتبۂ پیغمبرِ خاتم کہاں

ورطۂ حیرت میں ڈالے واقعہ معراج کا

دیکھئے پہنچا ہے وہ فخرِ بنی آدم کہاں

واقفِ اسرارِ پنہاں جس قدر ہے مصطفیٰ

رازِ دو عالم کا کوئی اس قدر محرم کہاں

بعدِ اقوالِ پیمبر بعدِ قرآنِ مبیں

دین و دنیا کے حقائق رہ گئے مبہم کہاں

از احادیثِ پیمبر یا زِ قرآنِ حکیم

اور مل سکتی ہیں باتیں آپ کو محکم کہاں

روضۂ اطہر پہ یا پھر گنبدِ خضرا پہ ہے

بارشِ انوارِ یزداں اور یوں پیہم کہاں

باپ، ماں، خواہر، برادر، زوجۂ و بنت و ولد

عرصۂ محشر میں کوئی مونس و ہمدم کہاں

وہ شفیع المذنبیں ہوتا نہ محشر میں اگر

ہم سے بد اعمال جاتے، سوچتے ہیں ہم کہاں

جامِ کوثر بھی ملے پینے کو تو کیفِ مزید

کیفِ چشمِ ساقی کوثر ہی ورنہ کم کہاں

مصطفیٰ کے در پہ جا حاضر ہوئے ہم بھی نظرؔ

اور کرتے بھی مداوائے دلِ پُر غم کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]