ذِکرِ رسولِ پاک سے ہے در کُھلا نجات کا
فضلِ خدا سے مل گیا یہ راستہ نجات کا
نامِ حضور کے سبب دُور ہُوئے عذاب سب
جاری رہے گا تا ابد یہ سلسلہ نجات کا
باتیں مرے حضور کی باعثِ علم و آگہی
شوق و ادب سے کیجئے یہ تذکرہ نجات کا
کشتی نبی کی آل ہے اصحابِ مصطفیٰ نُجوم
آقا نے یہ بتادیا ہم کو پتا نجات کا
عشقِ حضور کے دِیے قبر میں لے کے جائیے
پُوچھئے سچ تو ہے یہی اِک آسرا نجات کا
شافعِ روز حشر نے کام ہی سب بنا دئیے
اپنے کرم سے شاہ نے مُژدہ دِیا نجات کا
طیبہ کی سر زمین پر مرزا کا ہو جو مستقر
پھر تو کرم سے پائے گا یہ مُدّعا نجات کا