رات پیاسا تھا میرے لوہو کا

ہوں دوانہ ترے سگ کو کا

شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو

فکر ہے اپنے ہر بن مو کا

ہے مرے یار کی مسوں کا رشک

کشتہ ہوں سبزۂ لب جو کا

بوسہ دینا مجھے نہ کر موقوف

ہے وظیفہ یہی دعا گو کا

میں نے تلوار سے ہرن مارے

عشق کر تیری چشم و ابرو کا

شور قلقل کے ہوتی تھی مانع

ریش قاضی پہ رات میں تھوکا

عطر آگیں ہے باد صبح مگر

کھل گیا پیچ زلف خوشبو کا

ایک دو ہوں تو سحر چشم کہوں

کارخانہ ہے واں تو جادو کا

میرؔ ہر چند میں نے چاہا لیک

نہ چھپا عشق طفل بد خو کا

نام اس کا لیا ادھر اودھر

اڑ گیا رنگ ہی مرے رو کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]