راز در پردۂ دستار و قبا جانتی ہے

کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے

کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں

کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے

اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر

فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے

نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش

بے خودی میری ابھی میرا پتہ جانتی ہے

یہ کبھی مجھ کو اکیلا نہیں ہونے دیتی

میری تنہائی مجھے تم سے سوا جانتی ہے

آپ ایجاد کریں جور و ستم روز نئے

بھول جانے کا ہنر میری وفا جانتی ہے

دشت منظور ہے لیکن مجھے منظور نہیں

ایسی بستی جو شرافت کو خطا جانتی ہے

کون سے بُت ہیں جنہیں دست پیمبر توڑے

اُمّتِ حرص تو پیسے کو خدا جانتی ہے

نسبتیں لاکھ بدل ڈالے زمانہ لیکن

ایک دنیا تو مجھے اب بھی ترا جانتی ہے

اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن

ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے

میرے الفاظ ہیں در اصل قلم کے آنسو

روشنائی لہو بننے کی ادا جانتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]