راکھ دعووں کی کہیں ، اور کہیں وعدوں کی

آندھیاں خاک اڑاتی ہیں تری یادوں کی

ائے شبستانِ محبت کی مہکتی کلیو،

کچھ خبر بھی ہے تمہیں خانماں بربادوں کی

نوچ ڈالی گئی اوراق سے تحریرِ وفا

چپ کرا دی گئی آواز سخن زادوں کی

دشت کر ڈالے گئے دل کے محلات سبھی

اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی بنیادوں کی

عہدِ بدذوق کو بد کار ہے ہر اک شیریں

واجب القتل ہے اب ذات ہی فرہادوں کی

سخت جاں عشق کہ قائم ہے جنوں پہ اپنے

حالتیں غیر ہوئیں ٹوٹ کے افتادوں کی

شہرِ بے چشم میں انصاف ہوا ہے ناصر

انگلیاں کٹ گئیں تحریر کے شہزادوں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]