راہِ طلب میں لاکھ حوادث ملے مگر

دل بے نیازِ درد تجھے ڈھونڈتا رہا

تُو تو دلوں میں ایک خلاء چھوڑ کر گیا

تیرا خلاء نورد تجھے ڈھونڈتا رہا

صحرا کی خاک پھانکتے گزری ہے زندگی

میں ہو کے بادگرد تجھے ڈھونڈتا رہا

ائے موجہِ نسیمِ بہاراں ، کہاں ہے تُو

دل کا یہ برگِ زرد تجھے ڈھونڈتا رہا

اک بے پناہ عشق تھکا تیری کھوج میں

اک بے حساب درد تجھے ڈھونڈتا رہا

تحریر کے سوا اسے ترتیب چاہیئے

دیوانِ فرد فرد تجھے ڈھونڈتا رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]