رخشندہ تیرے حسن سے رخسار یقیں ہے

تابندہ ترے عشق سے ایمان کی جبیں ہیں

جس میں ہو ترا ذکر وہی بزم ہے رنگیں

جسمیں ہو ترا نام وہی بزم حسیں ہے

ہر گام ترا ہمقدم گردش گردوں

ہر جادہ ترا رہگذر خلد بریں ہے

چمکی تھی جو کبھی ترے نقش کف پا سے

اب تک وہ زمیں چاند ستاروں کی زمیں ہے

جھکتا ہے تکبر تیری دہلیز پہ آ کر

ہر شاہ تری راہ میں اک خاک نشیں ہے

چمکا ہے تری ذات سے انساں کا مقدر

تو خاتم دوراں کا درخشندہ نگیں ہے

ہر قول ترا حسن صداقت کا ہے ضامن

ہر فعل ترا صدق و ارادت کا امیں ہے

آنکھوں میں ہے اس خلق مجسم کا تصور

اک خلد مسرت مری نظروں کے قریں ہے

آیا ہے ترا نام مبارک میرے لب پر

گرچہ یہ زباں اس کی سزاوار نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]