رخ حیات کی تصویر ہیں مری غزلیں

حدیث قلب کی تفسیر ہیں مری غزلیں

خلاف صنف غزل جو زبان کھولتے ہیں

انہیں کے واسطے شمشیر ہیں مری غزلیں

عیاں ہوں ان سے اگر رنج و غم تو کیا حیرت

مسافران رہ میر ہیں ہیں مری غزلیں

تو انکو لفظوں کی بازی گری سمجھتا ہے

مرے لئے مری جاگیر ہیں ہیں مری غزلیں

کسی کی زلف گرہ گیر کے ہیں قبضے میں

مثال خطہء کشمیر ہیں مری غزلیں

بہ حال قلب شکستہ جو میں نے لکھا ہے

وہ قصہء دل دلگیر ہیں مری غزلیں

کہیں تو کوئی کمی رہ گئی ہے اے نوری

جبھی تو تشنہء تاثیر ہیں مری غزلیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]