رشکِ افلاک ذات ہو جائے

حرزِ جاں اُن کی بات ہو جائے

چشمۂ آبِ نعت جاری ہو

کچھ سخن کی زکوٰۃ ہو جائے

اُن کی چشمِ کرم کی جنبش سے

ذرہ بھی کائنات ہو جائے

میرا سینہ مدینہ ہو ، ایسی

قلب پر واردات ہو جائے

پھول چومیں کنارۂ لب کو

وردِ لب جب صلوٰۃ ہو جائے

لمحۂ مرگ کے پہنچنے تک

کیوں نہ اک آدھ نعت ہو جائے

رشکِ گل سنگِ قلب ہو جونہی

آپ کا التفات ہو جائے

اذنِ طیبہ ملے اگر مجھ کو

بار آور حیات ہو جائے

محوِ ذکرِ حبیب ہو آسیؔ

اور اس کی وفات ہو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]