رقص کیا رات بھر حدوں میں تھا

میں نہیں تھا اگر حدوں میں تھا

عشق جب سلطنت پہ حاکم تھا

کس قدر چین سرحدوں میں تھا

رات بھر شورِ ہاؤ ہُو کر کے

دل ، بوقتِ سحر حدوں میں تھا

رنگ بے حد حسین تھے ہر سُو

عجزِ دستِ ہنر حدوں میں تھا

کُھل گئے پھر تو وحشتوں کے پر

صرف پہلا سفر حدوں میں تھا

حد سے باہر بدک کے آ نکلے

ایک بے شکل ڈر حدوں میں تھا

میں تجاوز حدود سے کرتا

تُو حسیں ہی مگر حدوں میں تھا

فاصلہ ، تیرے در تلک ، دل کا

درد کی کارگر حدوں میں تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]