رنج و آلام کا مارا ہوں ، ستاتے کیوں ہو

اُن کی دہلیز پہ بیٹھا ہوں ، اُٹھاتے کیوں ہو

اِن پہ سرکار کی یادوں کے دیے ہیں روشن

’’میری پلکوں پہ ستاروں کو سجاتے کیوں ہو‘‘

ٹھہرو آقا کو سُنا لُوں میں کہانی اپنی

اُن کے دربانوں ! مواجہ سے ہٹاتے کیوں ہو

قلبِ مضطر میں ہے یادوں کا بسیرا ، اُن کی

پھر مجھے ہجر کا احساس دلاتے کیوں ہو

زائرِ بطحا ! حضوری کا وہ احوال سُنا

اِس قدر میرے تجسس کو بڑھاتے کیوں ہو

مجھ کو جانا ہے مدینے ، مرے حالات!، ہٹو

آڑ بن کر کے مری راہ میں آتے کیوں ہو

پھر بلائیں گے جلیل ، اُن کو سنانا جا کر

وہ جو سُنتے ہیں تو غیروں کو سُناتے کیوں ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]