اردوئے معلیٰ

رنج و آلام کا مارا ہوں ، ستاتے کیوں ہو

اُن کی دہلیز پہ بیٹھا ہوں ، اُٹھاتے کیوں ہو

 

اِن پہ سرکار کی یادوں کے دیے ہیں روشن

’’میری پلکوں پہ ستاروں کو سجاتے کیوں ہو‘‘

 

ٹھہرو آقا کو سُنا لُوں میں کہانی اپنی

اُن کے دربانوں ! مواجہ سے ہٹاتے کیوں ہو

 

قلبِ مضطر میں ہے یادوں کا بسیرا ، اُن کی

پھر مجھے ہجر کا احساس دلاتے کیوں ہو

 

زائرِ بطحا ! حضوری کا وہ احوال سُنا

اِس قدر میرے تجسس کو بڑھاتے کیوں ہو

 

مجھ کو جانا ہے مدینے ، مرے حالات!، ہٹو

آڑ بن کر کے مری راہ میں آتے کیوں ہو

 

پھر بلائیں گے جلیل ، اُن کو سنانا جا کر

وہ جو سُنتے ہیں تو غیروں کو سُناتے کیوں ہو

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ