رنج و آلام دور رہتے ہیں
مجھ پہ طاری سرور رہتے ہیں
ہے یقیں دل حرا ہے یا طیبہ
جب سے دل میں حضور رہتے ہیں
اُن کی چشمِ کرم کا صدقہ ہے
علم ہے ، باشعور رہتے ہیں
جب سے ہونٹوں پہ اُن کا نام آیا
غم نہیں ہیں ، سرور رہتے ہیں
جو دوانے ہیں شاہِ بطحا کے
راحتوں میں ضرور رہتے ہیں
وہ رضاؔ خوار ہو گئے سارے
جو بھی آقا سے دور رہتے ہیں