رنج و غم زیست کے جس وقت ستاتے ہیں مجھے

ایسے لگتا ہے وہ دامن میں چھُپاتے ہیں مجھے

وہ مری اپنی بھی پہچان بھُلا دیتے ہیں

یاد آتے ہیں تو اِس طرح سے آتے ہیں مجھے

کیا تصور ہے کہ میخانۂ عرفاں ہے کھلا

میرے آقا ہیں کہ نظروں سے پلاتے ہیں مجھے

اُن کی نسبت ہے کہاں مجھ سا گنہ گار کہاں

اپنے الطاف سے وہ اپنا بناتے ہیں مجھے

اِک فقط اُن کے کرم کا ہے سہارا ورنہ

میرے اپنے بھی جو ہیں بھولتے جاتے ہیں مجھے

اُن کی ہر ایک ادا اُسوۂ حسنہ ٹہری

طور جینے کے بہر طور سکھاتے ہیں مجھے

نعت کہتا ہوں تو اک کیف میں یہ کون و مکاں

جیسے ہر دم مرے اشعار سُناتے ہیں مجھے

وہیں جینے وہیں مرنے کی ہے خواہش میری

بارہا لوگ مدینے میں جو پاتے ہیں مجھے

میں جو جاتا ہوں وہاں میں نہیں جاتا عارفؔ

اپنے در پر مرے سرکار بُلاتے ہیں مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]