رنگ و بُو کا غبار ہوتے تھے

پا بہ جولاں بہار ہوتے تھے

ہائے وہ رات جب ترے گیسو

سانس میں مشکبار ہوتے تھے

ہائے وہ صبح جب ترے عارض

قاصدانِ بہار ہوتے تھے

ہائے جب گردنِ محبت میں

آرزؤں کے ہار ہوتے تھے

ملگجی چاندنی کے سائے میں

وقفِ صد انتظار ہوتے تھے

آج مرجھا گیا ہے اپنا دل

ہم خدائے بہار ہوتے تھے

اب وہ آہنگِ قلب ایازؔ کہاں

اک مچلتی سِتار ہوتے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]