روح کی پیاس بجھ سکے، ہجر کی شب ہو مختصر

پرتوِ روئے ذوالجلال ایسے پڑے وجود پر

قلب کے غار میں بھی ہو، وصل کی صبح کا اثر

وصل کے آفتاب سے ہو شبِ ہجر کی سحر

اے دلِ ناصبور سن! وقت کا انتظار ہے

اس نے کہا کہ روبرو، پیش بھی ہو گا تو ضرور

تیری یہ حاضری نہیں کوئی ہزاروں سال دور

صرف اِسی حیات میں ہجر کا ہے تجھے شعور

جیسے ہی آنکھ بند ہو، دیکھ سکے گا تو وہ نور

اے دلِ ناصبور سن! وقت کا انتظار ہے

جس کی طلب ہی وصلِ حق، عارضی زندگی میں ہو

شام و سحر تمام عمر، اُس کے خیال میں ہو جو

ملتی ہے اس جناب سے پھر یہ نوید روح کو

اس کے لیے تو ’’جنتیں رکھی ہوئی ہیں رب نے دو‘‘

اے دلِ ناصبور سن! وقت کا انتظار ہے

پہلی بہشت دید ہے، رب کی طرف سے ارمغاں

کیفِ دوام کا اثر دیکھے گی روح پھر وہاں

خلد میں مل ہی جائے گا دائمی وصل کا سماں

ایسا وصال پائے گا، جس کا نہیں یہاں گماں

اے دلِ ناصبور سن! وقت کا انتظار ہے

سانسیں گنی چنی ہیں بس، عمر کے انتظار میں

جاتی ہوئی خزاں ہے یہ، دیر نہیں بہار میں

اتنی سی عمر بھی ہے کیا، قرنوں کے کچھ شمار میں

دائمی کیف کی کلید ہے ترے اختیار میں

اے دلِ ناصبور سن! وقت کا انتظار ہے

انتظار:۴؍جمادی الثانی ۱۴۳۶ھ… مطابق: ۲۵؍مارچ ۲۰۱۴ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

مسلمانوں نہ گھبراؤ کورونا بھاگ جائے گا

خدا کی راہ پر آؤ کورونا بھاگ جائے گا عبادت کا تلاوت کا بناؤ خود کو تم خُو گر مساجد میں چلے آؤ کورونا بھاگ جائے گا طریقے غیر کے چھوڑو سُنو مغرب سے مُنہ موڑو سبھی سنت کو اپناؤ کورونا بھاگ جائے گا رہو محتاط لیکن خیر کی بولی سدا بولو نہ مایوسی کو […]

جس میں ہو تیری رضا ایسا ترانہ دے دے

اپنے محبوب کی نعتوں کا خزانہ دے دے شہرِ مکّہ میں مجھے گھر کوئی مِل جائے یا پھر شہرِ طیبہ کی مجھے جائے یگانہ دے دے اُن کی نعلین کروں صاف یہی حسرت ہے ربِّ عالم مجھے اِک ایسا زمانہ دے دے نوکری تیری کروں آئینہ کرداری سے اُجرتِ خاص مجھے ربِّ زمانہ دے دے […]