رودادِ سفر جس کو سنائی ترے در کی

ہر ایک نے چاہی ہے رسائی ترے در کی

آنکھوں میں بسایا ہے تصور کا سلیقہ

پلکوں پہ کبھی خاک سجائی ترے در کی

کمخواب کی، اطلس کی نہ مخمل کی طلب ہے

اے کاش ملے مجھ کو چٹائی ترے در کی

جاروب کشی میرا مقدر ہو وہاں پر

کرتا رہوں دن رات صفائی ترے در کی

دربان ترے در کے بشر ہوں کہ ملائک

کرتے ہیں سبھی مدح سرائی ترے در کی

اعمال مرے کچھ نہیں ، اِک تیری محبت

حاصل ہے، ذریعہ ہے، کمائی ترے در کی

اِک بار گیا تھا ترے دربار میں اشعرؔ

تقدیر نے بخشی تھی گدائی ترے در کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]