رُخِ مصطفٰی کی ہے روشنی یہ چمک جو شمس و قمر میں ہے

رُخِ مُصطفٰی کا ہی عکس ہے یہ دمک جو لعل و گہر میں ہے

جو اٹھا رہا ہے قسم خدا وہ ترا ہے چہرۂ دلربا!

کہ تُوئی سراجِ منیر ہے یہ قمر بھی تیرے اثر میں ہے

ترے ہجر کی جو ہیں ساعتیں ،یہ سکون سارا ہی لے گئیں

سو مداوا اس کا تمہی تو ہو، یہ جو درد میرے جگر میں ہے

یہ تری جو انگلی اٹھے اگر چلا آئے سورج لوٹ کر

ہوترا اشارہ چلیں شجر، وہ کمال تیری نظر میں ہے

ترے نقشِ پا کی ہے جستجو جو تلاشِ حق میں ہے رہنما

اِسی نقشِ پا کی تلاش میں ، مِری روح کب سے سفر میں ہے

مری زیست کیف سے ہے تہی سو بلا لیں اب تو مجھے نبی

میرا دل بھی ہو کبھی آشنا وہ جو کیف تیرے نگر میں ہے

ہے جلیل ان سا کوئی نہیں یہ سبھی نے مانا ہے بالیقیں

کہ سکون ایسا کہیں نہیں جو قدومِ خیرِ بشر میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]