رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ

ذکرِ نبی جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ

ان کا کرم ہے ہم کو مدینے بُلا لیا

ورنہ کہاں مدینہ کہاں ہم فقیر لوگ

آقا کی رحمتوں سے برابر ہیں فیض یاب

جبریل آسماں پہ یہاں ہم فقیر لوگ

لیتے ہی نام ان کا مقدّر سنور گئے

پہنچے ہیں پھر کہاں سے کہاں ہم فقیر لوگ

ہم ہیں گناہگار، ہیں وہ شافعِ خطا

یوں پا گئے ہیں ان سے اماں ہم فقیر لوگ

خلوت نشینی و دمِ غربت کے باوجود

دستِ عطا سے کب ہیں نہاں ہم فقیر لوگ

مانا کہ اُن کے در پہ پہنچ بھی گیے عقیلؔ

کیسے کریں گے حال بیاں ہم فقیر لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]