ریاکاری کی دولت ہی مجھے غم خوار دیتا ہے

جہاں مطلب نظر آئے تعلق وار دیتا ہے

چمک درکار ہے تجھ کو تو ذرے کی طرح ہو جا

پہاڑوں کو ہمیشہ وہ اندھیرے غار دیتا ہے

یہاں نیت کو پھل لگتا ہے پیڑوں سے یہ کہہ دینا

اسے کچھ بھی نہیں ملتا جو نیت ہار دیتا ہے

اسے اب اپنا چہرہ دیکھنا اچھا نہیں لگتا

میں آئینہ دکھاتا ہوں وہ پتھر مار دیتا ہے

اُسی سامان سے تعمیر کرتا ہوں کہانی کی

زمانہ جو مجھے اچھے بُرے کردار دیتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]