ریاکاری کی دولت ہی مجھے غم خوار دیتا ہے
جہاں مطلب نظر آئے تعلق وار دیتا ہے
چمک درکار ہے تجھ کو تو ذرے کی طرح ہو جا
پہاڑوں کو ہمیشہ وہ اندھیرے غار دیتا ہے
یہاں نیت کو پھل لگتا ہے پیڑوں سے یہ کہہ دینا
اسے کچھ بھی نہیں ملتا جو نیت ہار دیتا ہے
اسے اب اپنا چہرہ دیکھنا اچھا نہیں لگتا
میں آئینہ دکھاتا ہوں وہ پتھر مار دیتا ہے
اُسی سامان سے تعمیر کرتا ہوں کہانی کی
زمانہ جو مجھے اچھے بُرے کردار دیتا ہے