زبانِ عاصی پہ نام تیرا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

ہے گلشنِ روح مہکا مہکا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

اسی تمنا میں عمر بیتی کبھی تو جائیں گے ہم مدینے

خدا نے آخر وہ دن دکھایا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

ہوئے ہیں سچی طلب سے عاری، فقط ہوس کے ہوئے پجاری

رواں ہے پھر بھی عطا کا دریا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

سخی کے در پر تو جب بھی جا کر کسی نے دستِ طلب بڑھایا

طلب سے بڑھ کر دیا ہمیشہ کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

جلیل ان کی عطا کے صدقے ملا ہے اعزازِ نعت گوئی

ہے بے ہنر کو یہ اذن بخشا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]