زخموں کو چین آیا نہ پورے ادھڑ سکے

اچھے سے دل بسا ہے نہ کھل کر اجڑ سکے

اپنی کہانی اس لئے سب کو سنائی ہے

یہ شہر مجھ کو دیکھ کے عبرت پکڑ سکے

عجلت میں اس نے جانے کا یوں فیصلہ کیا

ہم ہاتھ جوڑ پائے نہ پیروں میں پڑ سکے

بے شک وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے

اتنا پڑھا لکھا ہو بس کہ آنکھ پڑھ سکے

ہم پر بہارِ وصل بھی نا مہرباں رہی

کب ہم خزاں میں پیڑ کی مانند جھڑ سکے

وہ کہہ رہا غلط تجھے ، تو مان لے غلط

اچھا ہے اک جواز پہ وہ بھی بچھڑ سکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]