زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں

کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں

چلتے چلتے خاک تن ہو گیا ہوں خاک میں

تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں

دل نشان ہو گیا ایک یاد کا فقط

رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت

زہر جو ہوا میں تھا آ گیا ہے سانس میں

ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں

پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی

کرب اِس قدر سوا، یاد ماند پڑ گئی

ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک

درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک

اور کتنا روؤں اب، اشک خوں تو ہو گئے

رنگ وحشتوں کے سب، ہاں جنوں تو ہو گئے

دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی

اور کتنا چلنا ہے، رات کتنی ڈھل چکی

تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک

ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک

مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں

کاسۂ جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں

درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں

اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]