معیار ہے سخن تو حوالہ نہ دیکھئے
شاخِ ہنر کو دیکھئے، شجرہ نہ دیکھئے
شاید اسی طرح مجھے پہچان جائیں آپ
لہجے کا رنگ دیکھئے، چہرہ نہ دیکھئے
رستے ہیں میرے گھر کے محبت کے راستے
دل کی کتاب کھولئے، نقشہ نہ دیکھئے
سینہ ہے داغ داغ مگر دل تو صاف ہے
گھر دیکھئے جناب، علاقہ نہ دیکھئے
دیواریں پڑھ رہے ہیں بس اپنی گلی کی آپ
اخبار پورا پڑھئے، تراشہ نہ دیکھئے
سائے تو گھٹتے بڑھتے ہیں سورج کے ساتھ ساتھ
قامت کو اپنی ناپئے، سایا نہ دیکھئے
ہو عزم آہنی تو ہمالہ بھی زیر ہے
رکھئے نظر فراز پہ تیشہ نہ دیکھئے
دیوار و در کے پردے ہٹا کر کبھی کبھی
جانب خدا کی دیکھئے، کعبہ نہ دیکھئے
بجھنے لگی ہیں شہرِ نگاراں کی رونقیں
کچھ کیجئے ظہیرؔ، تماشہ نہ دیکھئے