زمانے بھر کی گردشوں کو رام کر کے چھوڑ دوں

میں چاہوں جب بھی ہر خوشی کو عام کر کے چھوڑ دوں

یہ عشق تو نہیں کہ عمر بھر کو تھام لوں اسے

میں ہاتھ تیرا سرسری سلام کر کے چھوڑ دوں

وہ یاد جس کی بے خودی میں علم ہی نہ ہو سکے

میں کتنے سارے کام ایک کام کر کے چھوڑ دوں

میں تاج و تخت ، سلطنت سے ماورا ہوں یار _ من

یونہی کھڑے کھڑے یہ تیرے نام کر کے چھوڑ دوں

رکی رہوں تو اس جمود سے بھی اوب جاؤں میں

سفر کروں تو وہ بھی چند گام کر کے چھوڑ دوں

ترے غرور کی بساط میرے سامنے ہے یہ

میں تیرے جیسے سینکڑوں غلام کر کے چھوڑ دوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]