زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو

زمینِ حسن پہ مینارۂ جمال ہے تو

مثال کیسے ہو تیری کہ بے مثال ہے تو

سخن کے دائرے محدود ہیں بہ حدِ طلب

ورائے فہم ہے تو اور پسِ خیال ہے تو

رہے گا تیرے ہی نقشِ قدم سے آئندہ

جہانِ ماضی ہے تو اور جہانِ حال ہے تو

کتابِ زندہ ہے تیری حیاتِ نور کی نعت

مطافِ حرف ہے تو، قبلۂ مقال ہے تو

ترے ہی اِسم کی رہتی ہے قوسِ لب پہ نمود

نگارِ عصر کی تسبیحِ ماہ و سال ہے تو

وجودِ عجز میں تارِ نفَس ہے ذِکر ترا

مری طلب، مرا کاسہ، مرا سوال ہے تو

مَیں خود تو صیغۂ متروک ہُوں مرے آقا

یہ حرف و صوت، یہ اسلوب، یہ خیال ہے تو

زوالِ ذات میں بِکھرا ہُوا ہے تو مقصودؔ

کرم ہے شہ کا تہہِ دستِ با کمال ہے تو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]