زمیں بھی ہے تری آسماں بھی تیرا ہے

یہاں بھی راج ترا ہے وہاں بھی تیرا ہے

یہ سارے لعل و جواہر تری ہی کان میں ہیں

مہ و نجوم کا یہ کارواں بھی تیرا ہے

ہے آستانہ مدینے میں تیرے دلبر کا

جو مکہ میں ہے وہ پاک آستاں بھی تیرا ہے

گزر رہی ہے تری رحمتوں کے سائے میں

جہاں بھی تیرا نظامِ جہاں بھی تیرا ہے

خوشی کی فصل رہے یا رہے غموں کی رُت

بہار تیری ہے دورِ خزاں بھی تیرا ہے

ترے اشارے پہ چلتا ہے لاکھ ہو طوفاں

سفینہ بھی ہے ترا بادباں بھی تیرا ہے

کہیں پہ پھول کہیں خار و خس ہیں جلوہ نما

یہ دشت بھی ہے ترا گلستاں بھی تیرا ہے

غموں کی دھوپ میں دن گزارے ہیں ہم نے

ہمارے سر پہ مگر سائباں بھی تیرا ہے

نواز ساحرِؔ بے بس کو اپنی رحمت سے

کہ اس کی زیست کا سود و زیاں بھی تیرا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]