زندگی اُس کی بصد رنگِ دگر رہتی ہے

جس کے ارماں کی مدینے پہ نظر رہتی ہے

نارسا عرض کو وحشت نہیں بننے دیتے

اُن کو احساسِ نہاں تک کی خبر رہتی ہے

جان و دل، ہوش و خرد لوٹ کے آ جاتے ہیں

وح میں پھر بھی عجب موجِ سفر رہتی ہے

ایک ہی شب میں وہ چمکا تھا سرِ بامِ طلب

اب تو ہر شب ہی مری رشکِ قمر رہتی ہے

آنکھ کو بُجھنے نہیں دیتی فصیلِ حیرت

پلکوں سے لگ کے کہیں راہگُزر رہتی ہے

موجۂ بادِ صبا آئے گا امکان بہ لب

مَیں ہُوں دیوار جسے حسرتِ در رہتی ہے

دید اِک خواب ہے اور دور سمندر سے پرے

اُس کی تعبیر پسِ دیدئہ تر رہتی ہے

عکس بالذّات نہیں ہوتا ہے امکان کوئی

ہم وہاں رہتے ہیں، وہ ذات جدھر رہتی ہے

اذن آئے گا تو دیکھ آئیں گے وہ شہرِ کرم

آرزو ہے جو ابھی خاک بسر رہتی ہے

کرتا رہتا ہُوں اُسی اسم کی مدحت، اور یُوں

میری امّید بھی ایقان کے گھر رہتی ہے

مصرعِ نعت چمک اُٹھا ہے مقصودؔ ابھی

خواہشِ نُطق کہاں دست نِگر رہتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]