زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے

دل ملا زیرِ قدم ان کے بچھانے کے لیے

اک ہمیں کیا رہ گئے بس آزمانے کے لیے

اور دنیا بھی تو ہے تیرے ستانے کے لیے

یہ شبِ ہجراں تو آئی ہے نہ جانے کے لیے

دوستو آنا مری مٹی اٹھانے کے لیے

حرص کی عادت نہ چھوٹی سبحہ گردانی میں بھی

دستِ زاہد دیکھ جنباں دانے دانے کے لیے

اک چراغِ آرزو دل میں کہ ہے روشن ہنوز

آندھیاں درپے ہیں اس کو بھی بجھانے کے لیے

کیسۂ دل میں نہ رکھ حرص و ہوس، بغض و عناد

اس کو مختص کر محبت کے خزانے کے لیے

وقت کے ماتھے پہ بل آئے بس اتنی بات پر

چند لمحے مل گئے تھے مسکرانے کے لیے

سر جھکانے کو ہمارا اس قدر مشقِ ستم

کیا کریں گے وہ نظرؔ یہ دل جھکانے کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]