زندگی کے رنگوں سے بام و در سجانے میں

ایک عمر لگتی ہے گھر کو گھر بنانے میں

بام و در کو حیثیت آدمی سے ملتی ہے

خالی گھر نہیں ہوتے معتبر زمانے میں

نفرتوں کے بدلے میں ہم کسی کو کیا دیں گے

خرچ ہو گئے ہم تو چاہتیں کمانے میں

پھول کھل اٹھے دل میں، شبنمی ہوئیں آنکھیں

ذکر آ گیا کس کا ہجر کے فسانے میں

شخصیت پرستی کے پیڑ پی گئے سب کچھ

ہو گئی زمیں بنجر کچھ درخت اگانے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]