ساغرِ توحید وہ دے، پیرِ میخانہ مجھے

تا ابد حاصل رہے اک کیفِ رندانہ مجھے

نورِ حق رہبر نہ ہوتا گر مجھے سوئے حرم

لغزشِ پا لے چلی تھی سوئے میخانہ مجھے

فی سبیل اللہ جاں دینے سے مجھ کو کیا گریز

لکھ کے دے رکھا ہے جب جنت کا پروانہ مجھے

دل کا کاشانہ کہ تھا پہلے جو گلشن آفریں

ایک مدت سے نظر آتا ہے ویرانہ مجھے

والہانہ عشق کا اور جذبۂ ایثار کا

درس دو دو دے گیا، اک ایک پروانہ مجھے

عہدِ محکم ہے کہ دوں گا سب کو جامِ سرخوشی

منتظم اب کے کریں اربابِ میخانہ مجھے

ہر متاعِ زندگی کو ان پہ قرباں کر دیا

اب سمجھتے ہیں تو سمجھیں لوگ دیوانہ مجھے

سینکڑوں سجدے بتوں کو روز و شب کرتا ہوں میں

بار ہے لیکن ادائے حقِ دوگانہ مجھے

بادۂ عشرت پیوں یا زہرِ غم اس سے پیوں

بس خدا رکھے، ہے کافی دل کا پیمانہ مجھے

پیروِ دینِ براہیمی سمجھ کر اے نظرؔ

دیکھتے ہیں گھور کر سب اہلِ بت خانہ مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]