سالار اہلِ حق و صداقت نکل پڑے

بن کر حسین دین کی قسمت نکل پڑے

گمراہیاں یزید کی صورت نکل پڑیں

شبیر بنکے شمعِ ہدایت نکل پڑے

جب دیکھا لٹ رہی ہے شریعت کی آبرو

طیبہ سے پاسبانِ شریعت نکل پڑے

جب دین کے خلاف چلیں سرخ آندھیاں

ابن رسول بہرِ حفاظت نکل پڑے

اسلام کی حیات کا جب آ گیا سوال

شبیر لے کے شوق شہادت نکل پڑے

باطل کا زور توڑنا لازم تھا سو حسین

اک مختصر سی لے کے جماعت نکل پڑے

امت کا درد ، عشق نبی ، جذبۂ جہاد

دل میں بسا کے جانِ سیادت نکل پڑے

زہرا کے لاڈلے گل گلزار اہلبیت

شیر خدا کی بن کے شجاعت نکل پڑے

حالانکہ اور لوگ بھی کرتے تھے جاں نثار

اسلام کو تھی جن کی ضرورت نکل پڑے

اصغر کریں جو گود میں جانے کی آرزو

لینے کو اپنی گود میں جنت نکل پڑے

حقّانیت کے نام پہ سہ لینگے ہر ستم

یہ کہہ کے اہل بیتِ طہارت نکل پڑے

تاریخ ہے گواہ کہ میرے نبی کے لعل

دین خدا کی بن کے ضمانت نکل پڑے

آل نبی نے اپنی طرف راستہ دیا

گھر سے جو نورؔ اہل عقیدت نکل پڑے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]